Skip to product information
1 of 2

داستان فلسفہ | Dastan e Falsfa | Will Durant

داستان فلسفہ | Dastan e Falsfa | Will Durant

Regular price Rs.900.00
Regular price Rs.1,000.00 Sale price Rs.900.00
Sale Sold out
Shipping calculated at checkout.
کتاب: داستان فلسفہ(The Story of Philosophy)
مصنف: ول ڈیورانٹ
مترجم: سید عابد علی عابد
پبلشر: فکشن ہاؤس
روس میں نومبر 1917ء کے انقلاب کے بعد جو اشتراکی جماعت برسراقتدار آئی اس کے آئین و ضوابط "جمہوریہ" سے حیرت انگیز مشابہت رکھتے تھے
........
ہر اقلیطوس(470-530 ق م) کہتا تھا کہ تمام چیزیں دائماً متغیر ہوتی رہتی ہیں اور روان دوران رہتی ہیں۔ مادہ کتنا ہی ساکن کیوں نہ ہو اس میں تحول اور حرکت ضرور موجود ہوتی ہے چاہے نظر نہ آئے۔ تاریخ تکوین کا ایک چکر قائم ہے ہر چکر کا آغاز اور انجام آگ ہے(ملاحظہ فرمائیے گا) رواقیوں اور عیسائیوں کے ہاں جو روز قیامت اور دوزخ کے تصورات ہیں ان کا ایک ماخذ یہ بھی ہے وہ کہتا تھا تمام اشیا کی بود و نابود کا باعث کشمکش ہے۔ جنگ فرمانروائے کل ہے۔ اسی نے دیوتا بنائے انسان بنائے۔ اسی نے قرار دیا کہ یہ غلام ہیں اور یہ آزاد۔ کش مکش نہ ہو تو انحطاط شروع ہو جاتا ہے۔ کسی دوا کو جو مرکب ہو۔ آپ ہلاتے نہ رہیں۔ تو خراب ہو جائے گی۔ تغیر کشمکش اور انتخاب کے اس عمل میں صرف ایک چیز ابداً قائم رہتی ہے۔ وہ قانون ہے۔یہ نظام ازل سے چلا آیا ہے اور ابد تک باقی رہے گا اور یہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ کوئی انسان یا دیوتا اس نظام کا خالق نہیں
.......
ارسطو مشورہ دیتا ہے کہ 37 سال کی عمر میں بیس سال کی لڑکی سے شادی کرو
مرد ستر سال تک بچے پیدا کر سکتا ہے اور عورت پچاس سال تک۔ تو اگر شادی مندرجہ بالا تجویز کے مطابق ہو تو درست نتائج برآمد ہوں گے۔ چھوٹی عمر میں شادی کرنے سے بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں۔ تمام جانداروں میں چھوٹی عمر کے بچے کمزور ناقص اور بالعموم مادہ ہوتے ہیں۔ صحت محبت سے زیادہ اہم ہے پھر یہ بھی ہے کہ اگر آدمی جلدی شادی نہ کرے تو گویا وہ دائرہ اعتدال میں رہتا ہے۔ جو عورتیں جلدی شادی کر لیتی ہیں ان میں جنسی گمراہی پیدا ہو جاتی ہے اور جو مرد ایسا کرتے ہیں ان کا نشوونما رک جاتا ہے۔ یہ ایسے معاملات ہیں کہ نوجوانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنے چاہئیں۔ ان پر مملکت کی نگرانی ہونی چاہئے۔ مملکت کو یہ طے کرنا ہے کہ شادی کے لیے چھوٹی سے چھوٹی اور زیادہ سے زیادہ عمر کیا ہو(دونوں جنسوں کے لئے)
.....
ارسطو نے دیکھا کہ اس کا مقدمہ وہ لوگ سنیں گے جن کی مخالفت سقراط کے مخالفوں سے زیادہ شدید تھی۔ اس نے بڑی دانشمندی سے کام لیا کہ شہر چھوڑ کر چلا گیا اور کہتا گیا کہ میں ایتھنز کے شہریوں کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ دوسری بار فلسفے پر ظلم ڈھائیں
.....
ایک سال میں وینان نے تین آدمی کھوئے ایک سب سے بڑا حکمران دوسرا سب سے بڑا خطیب تیسرا سب سے بڑا فلسفی۔ یونان کی آب و تاب رومیوں کے چڑھتے ہوئے سورج کے سامنے ماند پڑ گئی لیکن روما کا جاہ و جلال قوت و اقتدار پر مبنی تھا نورِ فکر پر نہیں پھر یہ جاہ و جلال بھی زوال پذیر ہو گیا۔ چراغ گویا بالکل بجھ ہی گیا۔ ہزار سال تک یورپ کے چہرے پر ظلمت سایہ افگن رہی۔ اور دنیا فلسفے کے احیاء کی منتظر....
داستان فلسفہ کے پہلے دو ابواب سے چند اقتباس

7-Days Buyer Protection

View full details