Skip to product information
Fun Pehlwani Aroj O Zawal Masood Hayat فن پہلوانی عروج و زوال مسعود حیات

Fun Pehlwani Aroj O Zawal Masood Hayat فن پہلوانی عروج و زوال مسعود حیات

Regular price  Rs.1,200.00 PKR Sale price  Rs.1,000.00 PKR

مسعود حیات صاحب کا تعلق پہلوانوں کے خاندان سے تھا جو بڑے نامور ہو گذرے ہیں۔لاہور بلکہ برصغیر پاک وہند میں ان پہلوانوں نے بڑا نام کمایا ہے۔ آج مسعود حیات عوامی طور پر مشہور نہیں لیکن فن پہلوانی، فن مصوری، فن موسیقی کے حلقے ضرور ان کے نام سے واقف ہیں۔ مسعود حیات 15 ستمبر 1936 ء کو لاہور میں فاروق گنج کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام شیخ غلام دستگیر اور والدہ کا نام امیر بیگم تھا۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول بیرون بھاٹی گیٹ سے تعلیم حاصل کی۔ 1962 ء میں نیشنل بنک آف پاکستان میں اکاونٹس آفیسر کے پیشے سے منسلک ہوئے۔1969 ء میں ان کی شادی ماہ جبین نامی خاتون سے ہوئی۔ ان سے تین بچے ہوئے۔ جن میں بڑا بیٹا عثمان مسعود، پھر دو بیٹیاں آمنہ مسعود اور رابعہ مسعود ہیں۔ بچپن سے ہی مصوری کا شوق تھا بہت کم عمری میں نہایت خوبصورت پینٹنگ بنائی جس پر سب حیران رہ گئے اس کے بعد باقاعدہ طور پر پینٹنگ سیکھتے رہے۔ برصغیر پاک ہند کے نامور مصور عبد الرحمن چغتائی اور استاد اللہ بخش کی شاگردی میں ان سے مصوری کے اسرار و رموز سیکھے۔ مصوری میں ان کا موضوع لاہور کی گمشدہ ثقافت، تاریخی عمارات،ماحول اور انسانی اقدار کی کمی ان کا خاص موضوع تھا۔ لاہور اور اسلام آباد میں ان کی پینٹگز کی نمائشیں منعقد ہوتی رہیں۔ لیکن کبھی بھی کسی سرکاری یا نجی سطح پر کوئی حوصلہ افزائی اورایوارڈ یا انعام نہیں دیا گیا۔ اپنے خاندانی فن پہلوانی کو فروغ دینے کے لئے انہوں نے نیشنل اسٹائل ریسلنگ ایسویسی ایشن نامی تنظیم قائم کی۔اس تنظیم کی جانب سے چھوٹے اور غیر معروف پہلوانوں کو متعارف کیا۔ فن پہلوانی اور اکھاڑوں کی تاریخ پر ایک کتاب بھی ترتیب دی۔سماجی،اخلاقی اقدار کے علمبردار تھے ان موضوعات پر روزنامہ جنگ، روزنامہ خبریں، روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ امروز، روزنامہ نوائے وقت، ہفت روزہ فیملی میگزین، ہفت روزہ اخبار جہاں، ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں مضامین لکھتے رہے۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے حامی تھے۔ اسلامی نظام کے نفاذ کو ملک کی مضبوطی اور عوام کی خوشحالی کی وجہ سمجھتے تھے۔ زندگی کے آخری سالوں میں خانہ نشین ہو کر رہ گئے۔صرف مصوری اور مضامین لکھنے میں وقت گذارنے لگے۔ پچھلے 90 سالوں کے اخبارات کے تراشے اور جمع کردہ تصاویر، لکھے گئے سینکڑوں مضامین اور دو کتابیں ان کی علمی میراث ہیں۔انہوں نے 17 ستمبر 2020 ء کو لاہور میں وفات پائی۔ بیرون شیرنوالہ دروازہ مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور میانی صاحب قبرستان میں ان کے خاندانی احاطے نظام الدین میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی علمی میراث کو ان کے بیٹے عثمان مسعود سنبھالے ہوئے ہیں۔ لاہور جو میں نے دیکھا نامی کتاب ان کی لاہور میں زندگی کے مشاہدے پر مشتمل ہے جس میں لاہور کی تہذیب و ثقافت، انسانی و اخلاقی اقدار کی تبدیلی اور بدلاؤ جس کو آنکھوں دیکھا اس کا بیان شامل ہے۔

You may also like