Subscribe to our emails
Be The First To Know About New Collections & Special Offers.
Pickup currently not available
آزادی کی جانب اٹھتے قدم
آفس سے ہسپتال کے لئے نکلا تو بھوک نے آن لیا۔ راستے میں ایک چھوٹے سے لیکن خوبصورت کیفے پر رک گیا۔کھانا آرڈر کرنے کے بعد شیلف پر نظر پڑی جس میں خوبصورت کتب نہایت شائستگی سے رکھی ہوئی تھیں۔ میری نظریں نیلسن منڈیلا کی Long Walk to Freedom پر جا کر اٹک گئیں۔ جسے بہت عرصہ پہلے میں نے پڑھنے کہ کوشش کی تھی۔
نیلسن مینڈیلا پر چاروں اطراف سے پابندی لگ چکی تھی جیسے آج عمران خان عتاب کا شکار ہے۔ لیکن نیلسن منڈیلا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ آزادی کا سفر جاری رکھا۔ انہوں نے خفیہ پلان کے ذریعے اپنے کارکنان کو گلی گلی کوچے کوچے متحد رکھا۔ ان کی تربیت کے لئے علیحدہ سے نصاب تیار کیا گیا جس پر منڈیلا سمیت دیگر رہنماء چھپ چھپ کر لیکچر دیا کرتے تھے۔
کمپنی سرکار جب منڈیلا کے عزائم اور اس کے کارکنان کو نہ روک پائے تو انہوں نے منڈیلا کو جیل میں اٹھا کر پھینک دیا۔ لیکن تعلیم و تربیت اور انقلاب کا قافلہ رواں دواں رہا۔ ویسے بھی سورج کو طلوع ہونے سے کون روک پایا ہے۔ 27 سالہ جیل میں منڈیلا نے ہزاروں کتابیں پڑھیں اور امید کی کرن جگائے رکھی کہ ایک دن آئے گا، جب وہ سلاخوں سے نکل کر اپنی عوام کے درمیان ہوگا اور ان کے لئے آزادی کا نعرہ لگا رہا ہوگا۔
آخر کار 11 فروری 1990ء کا سورج آزادی کی کرن کے ساتھ طلوع ہوا۔ منڈیلا نے وکٹوریہ جیل کے تمام اہلکاروں سے ملاقات کی اور سب کا فردا فردا شکریہ ادا کیا۔ منڈیلا کو کار میں بٹھا کر جیل سے روانہ کیا جانے لگا تو ایک اہم شخص بھاگتا ہوا منڈیلا کے پاس آیا۔ اس نے منڈیلا سے کار سے اترنے کی درخواست کی اور کہا: "ہم آپ کے آزادی کی جانب بڑھتھ ہوئے آخری قدم دیکھنا چاہتے ہیں، اور آنے والی نسل کے لئے یہ لمحات ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں"۔ منڈیلا کار سے اترا، وہ دروازے کی جانب چلتا جارہا تھا اور اس کے استقبال کے لئے موجود ہزاروں لوگوں کا شور بھی بڑھتا جارہا تھا۔ دروازے پر پہنچ کر منڈیلا کے قدم رک گئے۔ وہ اپنے لوگوں کو 27 سال کے بعد دیکھ رہا تھا۔ پوری دنیا کا میڈیا منڈیلا کی کوریج کے لئے پہنچ چکا تھا۔منڈیلا کا خواب تھا کہ وہ کبھی جیل سے باہر بھی ایک رات گزار سکے گا۔ اور اپنی حقیقی آزادی کا نعرہ لگا سکے گا؟ اس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوچکا تھا۔
(سنہ 2016 میں میں نے نیلسن منڈیلا کے پوتے 'منڈلا مینڈیلا کو اس وقت دیکھا جب وہ پاکستان آئے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری کہ دعوت پر مینار پاکستان پر ہونے والی عالمی میلاد کانفرنس میں شرکت کی تھی۔)
(خیال پارے
محمــــد طـــاھــⷶــⷨـــر
07 محرم 1445)