Subscribe to our emails
Be The First To Know About New Collections & Special Offers.
Pickup currently not available
ڈاکٹر مختار ظفر اردو زبان و ادب کے استاد ریے، انتظامی عہدوں پر فرائض انجام دیے، مضامین اور کتابیں لکھیں، روزنامہ خبریں ملتان کا ادبی صفحہ بھی ترتیب دیتے رہے۔
1994 میں انھوں نے " ملتان میں اردو کی شعری روایت" کے موضوع پر پی ایچ-ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تحقیقی مزاج کے ساتھ ان کا علمی و ادبی سفر جاری رہا۔ سال رواں میں ان کے ادبی سفر کی ایک اور جہت سامنے آئی: "سوئے حرم لے چل" اور
" کیوں نہ ہم بھی سیر کریں ساؤتھ کوریا کی"
کے عنوان سے ایک ہی جلد میں ان کے دو سفر نامے طبع ہوئے۔
اول الذکر عمرے کا اور ثانی الذکر ساؤتھ کوریا کا ایک مختصر سا سفر نامہ ہے۔
دونوں سفرناموں میں مصنف کا عمیق مشاہدہ، تاثرات، تبصرے اور توضیحات ان سفر ناموں کی اہمیت میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ہر ہر صفحے پر مصنف کے وسیع مطالعے کی جھلکیاں نظر آ رہی ہیں۔ کلاسیکی اور جدید شعرا کے اشعار کا جگہ جگہ بر محل استعمال ان سفر ناموں کو مزید دل چسپ بنا رہا ہے۔
عمرے کا سفر نامہ عقیدت و ارادت میں ڈوب کر لکھا گیا ہے۔ یہ سفر نامہ جس متانت کا متقاضی ہے وہ مصنف کے پیش نظر ہے۔ جب کہ ساؤتھ کوریا کے سفرنامے میں شوخی اور شرارت بھی اپنا رنگ دکھا جاتی ہے:
"یہاں میسر آسانیوں کی بنا پر نظیر اکبر آبادی کی زبان میں یہ کہنے پر مجبور نہیں ہونا پڑتا کہ
" بس ترستے ہی رہے افسوس پیمانے کو ہم"
اور نہ یہ کہ
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم
(ص 129)