Subscribe to our emails
Be The First To Know About New Collections & Special Offers.
Pickup currently not available
نور الحق نور کا ناول "آدھی چیخ" ہمارے ملمع شدہ سماج میں ادبی جرات کا مثالی مظہر ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے اکیسویں صدی کے مابعد جدید دور اور سوشل میڈیائی ماحول میں بھی جنسیات پر قلم اٹھانے والوں کو یہ جملہ ضرور سننا پڑتا ہے کہ کیا لکھنے کو یہی ایک موضوع رہ گیا ہے؟اگر معترض سے پوچھا جائے کہ اس نازک موضوع پر ہمارے ہاں لکھا ہی کیا گیا ہے؟تو وہ ہمیں کوئی تسلی بخش جواب بھی نہیں دے سکتا۔ جب کہ ہند کی قدیم تہذیب میں جنس پر صحت مند کتابوں کا ابتدائی سراغ اسی سر زمین پر ملتا ہے۔ جنس کے ساتھ احساس گناہ کی جڑت نے اس خالص فطری تخلیقی جذبے کو جو ہر ذی روح کی وجہ تخلیق بھی ہے اور نسلِ نو سے کڑی ملانے کا ذریعہ بھی، اسے گدلا کر دیا ہے۔ اب نہ تو اس پر صحت مند گفت گو ہوتی ہے اور نہ ہی اس کو تعلیم کا حصہ بنانے کا خیال کسی کو آتا ہے۔
ناول "آدھی چیخ" میں جنسی کجی یا جنسی ضرورت کی نا آسودگی سے پیدا ہونے والی نفسیاتی الجھنوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اسلوب بے باک اور بے ساختہ ہوتے ہوئے بھی شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتا۔ اکیسویں صدی کا فکشن جس اختصار اور جامعیت کا تقاضا کرتا ہے وہ اس ناول کا اختصاص ہے۔یہ ناول فنی اعتبار سے سراپا
ری،جزئیات نگاری اور منظر کشی کا عمدہ عکاس ہے۔ ناول کی کہانی صرف ایک کردار افراہیم یوسف تک محدود نہیں بلکہ کئی کردار اور خود کہانی کار کاشف بھی ناول کا حصہ ہے۔
نور الحق کا مطالعہ اور زندگی کا سنجیدہ مشاہدہ ناول کو مزید تہہ دار بناتا ہے کیونکہ وہ مطالعے کو زمینی حقائق کے ساتھ جوڑ کر کہانی بنتا ہے۔
ناول پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تخلیق کیے گئے کردار زندگی کی کھلی فضا میں سانس لیتے ہیں اور کہانی کے حادثات اور واقعات کے تسلسل میں ارتقائی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ اسلوب متاثر کن ہے،بنت قاری کو گرفت میں لیتی ہے۔ ناول کا انجام ، کہانی کا روایتی اختتام ہرگز نہیں ہے بلکہ زندگی کی طرح متحرک ہے اور مسلسل ہے،جہاں کوئی بڑا واقعہ اس تسلسل کو رکنے نہیں دیتا کیونکہ ہر لحظہ زندگی نئے سفر کی جانب معنی خیز اشارے کرتی ہے
ماجد شاہ