Subscribe to our emails
Be The First To Know About New Collections & Special Offers.
Pickup currently not available
تعارف
غزہ کے آسمان پر بمباری کی گونج اور بچوں کے خوف زدہ چہروں پر آنسوؤں کی نمی ابھی سوکھی نہیں کہ ہم ایک بار پھر غسان كنفانی کی تحریروں کی طرف لوٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کنفانی کی کہانیاں وقت کے کسی لمحے میں مقید نہیں؛ وہ زندہ ہیں، سانس لیتی ہیں، اور ہر دھماکے، ہر تباہ شدہ اسکول، ہر بے یار و مدد گار پناہ گزین کی چیخ کے ساتھ از سر نو جنم لیتی ہیں۔
غسان كنفانی نہ صرف فلسطینی مزاحمت کا ایک درخشاں ادبی استعارہ ہیں بلکہ وہ عربی افسانے کو تاریخ، سیاست اور داخلی کرب کے جس دھارے پر لے کر چلے ، وہ آج بھی بے مثال ہے۔ ان کے افسانے کوئی نظریاتی منشور نہیں، بلکہ روز مرہ کے اُن کرداروں کا نوحہ ہیں جو اپنی سرزمین سے بے دخل ہونے کے بعد خواب اور بھوک کے در میان معلق رہتے ہیں۔ کنفانی نے فلسطینی وجود کے منتشر لمحات کو جس سادہ مگر اثر انگیز اسلوب میں بیان کیا، وہ اردو زبان کے قاری کے لیے بھی کسی نامانوس تجربے سے کم نہیں۔
اس کتاب میں شامل تراجم، در حقیقت، لمحہ موجود کا جواب ہیں۔ اس وقت جب غزہ کی گلیاں خاکستر ہو رہی ہیں، جب بچوں کے بہتے بلبے تلے دبے مل رہے ہیں، اور جب عالمی ضمیر ، حسب روایت، خاموشی کی چادر اوڑھے سویا ہوا ہے۔ ایسے میں کنفانی کی کہانیاں محض ادبی متون نہیں، بلکہ سچائی کی وہ گواہی بن جاتی ہیں جو نہ دبائی جا سکتی ہے نہ جھٹلائی۔
ان افسانوں کا اردو ترجمہ ایک طرف تو زبان کی حدوں کو پار کر کے فلسطینی تجربے کو اردو کے قاری کے قریب لاتا ہے، اور دوسری طرف اردو ادب میں ظلم، جلا وطنی، اور شناخت کے موضوعات پر جاری مکالمے کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے۔ یہ تراجم نہ صرف کنفانی کے اسلوب کی سادگی ، علامتی طاقت اور جذباتی گہرائی کو منتقل کرنے کی ایک کوشش ہیں بلکہ اردو زبان میں مزاحمت اور یادداشت کے تسلسل کا ایک حصہ بھی ہیں۔
غسان كنفانی نے ایک بار کہا تھا، "تم ایک آدمی کو مار سکتے ہو، لیکن اُس کہانی کو نہیں جو اُس نے سنائی ہو"۔ اس کتاب میں وہی کہانیاں سانس لے رہی ہیں۔ زخم خوردہ، لیکن زندہ۔
انعام ندیم
جولائی 2025ء