Subscribe to our emails
Be The First To Know About New Collections & Special Offers.
Pickup currently not available
ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں انسان کی عزت اور وقار محض اس کے کردار ہی سے نہیں بلکہ اس کی ڈیجیٹل شناخت سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ایک سافٹ وئیر کی مدد سے بنائی گئی تصویر، ایک گمراہ کن پوسٹ، یا بد نیتی پر مبنی الزام، یہ سب کسی بھی شخص کی زندگی کو تہس نہس کرنے کے لیے کافی ہیں۔ آن لائن کردار کشی اب محض ٹیکنالوجی سے جڑا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ سائبر کرائم ، انسانی حقوق، اور نفسیاتی صحت کا ایک سنجیدہ بحران بن چکا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں ، جہاں سائبر تو ر قوانین ابھی یا تو مکمل طور پر مرتب نہیں ہوئے یا ان پر عمل درآمد کے حوالے سے ابہام پائے جاتے ہیں، اور پھر عدالتی نظام مختلف رکاوٹوں اور مسائل کا شکار ہے، وہاں آن لائن کردار کشی اور سائبر جرائم سب سے پیچیدہ اور خاموش تشدد کی صورتیں بن چکے ہیں۔ یہ کتاب ایسے ہی ایک تشدد کی گواہی ہے اور ایک شخص کی اس کے خلاف ثابت قدم جد و جہد کی داستان بھی۔
اشفاق لغاری جو ایک بڑی سرکاری یونیورسٹی میں ملازم اور سندھ کے ادبی حلقوں میں جانا پہچانا نام ہیں ، اس وقت ایک اذیت ناک تجربے سے گزرے جب ان کی ایک جعلی تصویر سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی۔ اس تصویر میں انہیں یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے ساتھ نیم برہنہ اور غیر اخلاقی حالت میں دکھایا گیا تھا۔ یہ سراسر جھوٹ تھا، لیکن اس کا اثر خوفناک حد تک حقیقی تھا جس نے اشفاق کی ذاتی ، سماجی اور پیشہ ورانہ زندگی پر ایک کاری ضرب لگائی۔ اس شیطانی کھیل کا نشانے صرف اشفاق نہیں تھے بلکہ ادارے کے باقی افراد بھی زد میں تھے۔
اکثر لوگ ایسے حالات میں گھبرا جاتے ہیں اور خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اشفاق نے مزاحمت کا راستہ چنا۔ انہوں نے اس لڑائی کو محض قانونی مقدمہ نہیں سمجھا بلکہ اسے ایک جذباتی اور نفسیاتی جدوجہد کے طور پر اپنایا، بالکل ویسے ہی جیسے جنسی تشدد کا شکار شخص اپنے وقار کی بحالی کے لیے لڑتا ہے۔
اس راہ میں انہیں بارہا تاخیر ، قانونی نظام کی بے حسی، اور بااثر ملزم کی طاقت اور روابط کا سامنا بھی رہا۔ وہ کئی بار تنہائی اور بے بسی کا شکار ہوئے۔ لیکن ان کے لیے ڈاکٹر فوزیہ سعید اور مختاراں مائی جیسی باہمت خواتین مثال تھیں جنہوں نے اپنے ساتھ روا ر کھے گئے جنسی مظالم کے جواب میں خاموش رہنے کے بجائے ان کے خلاف آواز اٹھائی، ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے عدالتی جنگ لڑی اور اس آپ بیتی کو کتابی شکل میں لوگوں تک بھی پہنچایا۔ ان با حوصلہ خواتین کی طرح اشفاق نے بھی اپنی جد و جہد کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ نتائج کی پر واہ کیے بغیر سچائی کے لیے کھڑا ہونا ہی اصل انصاف ہے۔