نین ترے انجان | ناول | کنول بہزاد
نین ترے انجان | ناول | کنول بہزاد
Regular price
Rs.300.00 PKR
Regular price
Rs.600.00 PKR
Sale price
Rs.300.00 PKR
Unit price
/
per
نین ترے انجان/کنول بہزاد
تبصرہ رئوف کلاسرا
میرا لٹریچر پڑھنے کا سفر کچھ الٹ شروع ہوا۔ بچپن میں بچوں کی کہانیوں سے شروع ہو کر ٹین ایج میں ڈائجسٹ پڑھے۔ کالج میں انگریزی لٹریچر آپشنل رکھا تو وہاں سے انگریزی ناول اور کہانیاں شروع کیں اور پھر نعیم بھائی نے روسی اور فرنچ ادیبوں سے معتارف کرادیا۔ اردو ادب پڑھا تو ضرور لیکن جتنا مجھے پڑھنا چاہئے تھا وہ نہیں پڑھا۔ لیکن اب دل کرتا ہوں پاکستانی ادب زیادہ پڑھوں، زیادہ اردو ناول اور کہانیاں پڑھوں۔
آپ کو شاید عجیب بات لگے لیکن آج کل جو کچھ اردو میں میرے ہاتھ لگ جائے پڑھ لیتا ہوں اور سب لکھاریوں کو پڑھتے ہوئے داد دیتا ہوں۔ کوئی تحریر اچھی لگی تو اس پر تبصرہ کر دیتا ہوں اور اگر نہ لگے تو تبصرہ نہیں کرتا لیکن کسی ادیب یا لکھاری بارے نیگٹو لکھ کر اس کا دل توڑوں یہ مجھ سے نہیں ہوپاتا۔ کسی کی برسوں کی ریاضت کو محض ایک پوسٹ یا ایک جملے کے بوجھ تلے دم نہیں توڑنا چائیے۔ میں سمجھتا ہوں ہر کوئی اپنے تئیں اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب نہ سب برا لکھتے ہیں نہ سب اچھا۔
اگر کسی ناول کی کہانی مجھے اپنے اندر involve رکھے اور میں پورا ناول یا کہانی پڑھ لوں تو میں اس کا کریڈٹ ناول اور ناول نگار کو دیتا ہوں۔ ورنہ عمر کے اس حصے میں جب آپ کو کچھ ادب سے جان پہچان ہوچکی ہوتی ہے آپ کے لیے کسی نئے لکھاری کی تحریر میں انولو رہنا کچھ مشکل ہوجاتا ہے۔ آپ تھوڑی دیر بعد بور ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور کہانی کے بہت سارے کرداروں کو پہلے سے predict کر سکتے ہیں کہ وہ اب کیا کریں گے یا ناول کیا موڑ لے گا۔ اچھے ناول میں ہمیشہ دلچسپ twists ہوتے ہیں جو قاری کو کبھی guess نہیں کرنے دیتے اور ہر موڑ پر نیا ٹوسٹ آپ کا منتطر ہوتا ہے۔ بعض ناول پڑھ کر آپ کی پیاس نہیں بجھتی جیسے علی اکبر ناطق کا “نولکھی کوٹھی” اور محمد حفیظ خان کا “انواسی”۔ آپ کا دل کرتا ہے یہ دونوں ناولز کبھی ختم نہ ہوں اور آپ پڑھتے رہیں۔ حالیہ ایک برس میں یہ وہ دو ناولز ہیں جو میں کچھ عرصے بعد دوبارہ پڑھنا چاہوں گا۔
جب میں نے کنول بہزاد صاحبہ کا لکھا یہ ناول “نین ترے انجان “شروع کیا تو میرا خیال تھا میں زیادہ دیر تک اس میں دلچسپی شاید برقرار نہ رکھ پائوں گا۔ لیکن بہت کم ناول ہوں گے جو آپ ایک نشت میں پڑھ لیتے ہیں اور اس ناول کو میں نے ایک ہی نشست میں ختم کیا ۔ لگتا ہے یہ ناول میرے جیسے دیہاتیوں کے لیے لکھا گیا ہے۔ لیکن مجھے ایک خوف ہے اسے ہر کوئی انجوائے نہیں کرسکے گا۔ اگرچہ دیہاتی زندگی اور کرداروں پر کنول بہزاد کی بہت گرفت اور اچھا مشاہدہ ہے۔ بعض جگہوں پر تو مجھے محسوس ہوا میں خود اس ناول کا ایک کردار ہوں اور شاید یہ شہریار کی نہیں میری اپنی کہانی ہے، میرے گائوں کی کہانی ہے اور ناول کے بعض گوشے میری ہی زندگی کو بے نقاب کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے بہت سارے لوگوں کو یہ روایتی کہانی لگے۔ دیہاتی لڑکا اور ماڈرن شہری لڑکی کا رومانس اور اس دوران گائوں میں انتظار کرتی ایک کزن۔۔ لیکن اس روایتی کہانی میں بھی جو ٹریٹمنٹ رکھا گیا وہ آپ کو ناول نیچے نہیں رکھنے دیتا۔ کہانی کی زبان و بیان خوبصورت ہے ۔ دیہاتی ماں باپ کے دکھ اور رشتوں کی نزاکتوں کو بھی خوب نبھایا گیا ہے۔ کہانی میں ٹوسٹ تو ہیں لیکن شاید کچھ کہانی میں تفصیلات یا مناسب منظر کشی ہوتی تو شاید کہانی کچھ طویل اور زیادہ خوبصورت ہوسکتی تھی ۔
مجھے اس ناول میں کنول بہزاد کی اردو پر گرفت نے متاثر کیا۔ اچھے جملوں نے ناول کی خوبصورتی میں اضافہ کیا۔ اگرچہ لگتا ہے کہ ناول کو ختم کرنے کی جلدی تھی ورنہ کہانی میں اتنی جان تھی کہ مزید ایک دو سو صحفات لکھے جاسکتے تھے۔ بہرحال مصنفہ کے مشاہدے کو داد دینی پڑے گی جس طرح انہوں نے دیہاتی اور شہری زندگیوں کو ڈیل کیا۔۔ خصوصا گائوں کی کہانیوں اور کرداروں پر ان کی گرفت زیادہ مضبوط ہے بہ نسبت شہر اور شہری کرداروں کے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر یہ ناول ایک فلمی رنگ لیے ہوئے ہے جو شاید سنجیدہ قاری کو اپیل نہ کرے۔ ہوسکتا ہے کوئی ٹی وی کا ڈرامہ پروڈیوسر اس ناول پر ڈرامہ بھی پروڈیوس کرنے کا سوچے کیونکہ اس میں وہ ٹچ موجود ہیں۔ بعض جگہوں پر ناول پڑھتے ہوئے آپ کچھ کرداروں ساتھ ایسا تعلق بنا چکے ہوتے ہیں کہ آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا اور آپ کی آنکھیں بھی گیلی ہوتی ہیں۔ گائوں میں اپنے کزن شہریار کے انتظار کی سولی پرلٹکی بے چاری پروا کا دکھ آپ کو اپنے اندر تک محسوس ہوتا ہے۔ آپ بھی اس کی اذیت کے درد کے ہر لحمے سے گزرتے ہیں۔ یہ لکھاری کی کامیابی ہے۔
کنول بہزاد کا اصل امتحان دوسرا ناول لکھنا ہوگا اور انہیں ناول کو فلمی یا کسی اخباری میگزین کو سامنے رکھ کر نہیں لکھنا ہوگا۔ انہیں سنجیدہ قاری کو سامنے رکھ کر ناول لکھنا ہوگا۔ انہیں ذہن۔ میں رکھنا ہوگا کہ ایک ادبی ناول کو کسی ڈائجسٹ کی کہانی نہیں لگنا چاہئے۔
ناکام محبتوں اور بدلتے رشتوں کی ایک ہی کہانی ہوتی ہے لیکن ہر دفعہ ادیب ان کہانیوں کو نیا رنگ دیتا ہے اورادیب اگر قاری کو کتاب نیچے نہ رکھنے دے تو وہی اس کی کامیابی ہے۔۔ میں نے تو خود کو اس ناول کا ایک کردار سمجھ کر پڑھا ہے۔۔ آپ بھی اس ناول میں کہیں نہ کہیں خود کو ڈھونڈ ہی لیں گے اور یہی کنول بہزاد کی کامیابی ہے۔